کتنی مشکل بات کہی آسانی سے |
صحرا،سبزہ کرنا آنکھ کے پانی سے |
اک کردار پہ مبنی تھی ،سو ختم ہوئی |
نکل گیا جب وہ کردار کہانی سے |
ساری دنیا اجڑی اجڑی لگتی ہے |
گاؤں سے اک گھر کی نقل مکانی سے |
خوف یہ تیرے ہوتے لاحق رہتا تھا |
اب کب ڈرتا ہوں دل کی ویرانی سے |
حال ہمیں بھی کل کو ماضی کر دے گا |
ہم کب سیکھے ہیں اس دنیا فانی سے |
شر سے خیر برآمد بھی ہو سکتی ہے |
اچھا سیکھا انساں نے نادانی سے |
گر ہوتا تو غزلیں سنتے صوفی سے |
اور چائے بھی پیتے اس سیلانی سے |
معلومات