یہاں پہ آئے تو دلچسپ یوں کہانی ہوئی
پتہ چلا ہی نہیں ختم زندگانی ہوئی
نظر پڑی جو کسی پر تو دل بھی وار آئے
پھر اس کی نذر ہماری بھری جوانی ہوئی
ہنوز چھوڑ نہ پائے شباب کی باتیں
بدن پرانا ہوا روح کب پرانی ہوئی
دکھائی دیتے ہیں جب لوگ اس جگہ مصروف
تو مُڑ کے دیکھنا بھی پیار کی نشانی ہوئی
قدم قدم پہ یہاں موڑ اک نیا آئے
گماں ہو ہر جگہ اب مرگِ ناگہانی ہوئی
نہ دیکھ پائے ابھی تک تو یہ جہاں بھی ہم
کہ آگے چل دئے بس یونہی آنی جانی ہوئی
یہاں جو آیا ہے آخر کو اس نے جانا ہے
کہاں کسی کی یہاں زیست جاودانی ہوئی
مسیحا جن کے لئے ہو گئے تھے ہم بیمار
وہ آئے پوچھنے اتنی تو مہربانی ہوئی
کسی کی چشمِ فسوں ساز نے کیا جادو
ہماری فکر میں یونہی نہیں روانی ہوئی
ہمیشہ ہم نے بھلا دوستوں کا چاہا تھا
نہ جانے کیوں انہیں پھر ہم سے بد گمانی ہوئی
خیال اُن کا نہیں آیا بے سبب طارق
سُنی ہے دل پہ جو دستک ہے ناگہانی ہوئی

0
49