بھری محفل میں تنہا کر دیا ہے
تخیل نے تماشا کر دیا ہے
ترے ہونے کا میٹھا میٹھا موسم
اک ان ہونی نے کڑوا کر دیا ہے
یکایک آگہی کے حادثے نے
کسی بچپن کو بوڑھا کر دیا ہے
مرے سب آنسووں کا کھارا پانی
تری بخشش نے میٹھا کر دیا ہے
کئی ذرے جو سورج ہوگئے ہیں
سمندر تھا جو صحرا کر دیا ہے
نگاہیں بولتی ہیں خامشی سے
نظر نے حشر برپا کر دیا ہے
نگاہِ ناز سے بھر دے لبا لب
کہ میں نے شیشہ پیاسا کر دیا ہے

0
144