حسن بدذات ہے پر عشق تو بدذات نہیں |
آپ جو سمجھیں، چلو خیر کوئی بات نہیں |
بھول جائیں تمہیں یہ ٹھیک کہا ہے تم نے |
ہاں مگر اتنے گرے ہوۓ بھی جذبات نہیں |
عشق شطرنج ہے تو شوق ہے مہرہ اس کا |
اور مہرہ بھی یہ ایسا کہ جسے مات نہیں |
آسرے لے کے جیے جاتا ہوں جیسے تیسے |
آسرے؟ جن میں کوئی سازِ مدارات نہیں |
میری برداشت سے باہر ہے تمہاری یہ کمی |
رابطے کٹ گئے، کچھ رونقِ لمحات نہیں |
چپ ہوں اسلوبِ تمنا کا خطر ہے مجھ کو |
اب سوالات نہیں کوئی جوابات نہیں |
کسی سے بنتی نہیں میری کہ میں وہ ہوں جسے |
خوۓ تضحیک نہیں شوقِ خرافات نہیں |
عالمِ شوق میں تھا ہی نہیں وہ میرے ساتھ |
سو ندامت سی ہے امیدِ مکافات نہیں |
بے سبب ملتا تھا وہ پہلے پہل لیکن زیبؔ |
بارِ آفات بھی اب وجہِ ملاقات نہیں |
معلومات