مالک ہے وہ جو عالمِ نا پائے دار کا |
سب حال جانتا ہے غریب الدیار کا |
وقتِ سحر قریب ہے رخصت ہوئی ہے شب |
لاتا ہے آفتاب زمانہ نہار کا |
جاتی ہوئی خزاں کو کہیں الوداع اب |
دستک ہے در پہ دے رہا موسم بہار کا |
اب منتظر ہیں موت کے جھوٹے خدا سبھی |
کرتے ہیں انتظام وہ اپنے مزار کا |
دو چار جام میکدے سے اس کے پی لئے |
اندازہ پھر ہوا ہمیں ان کے خُمار کا |
ہم نے لباسِ عشق کیا جب سے زیب تن |
دیکھا ہے حُسن پیرہنِ تار تار کا |
کس کس کی داستان سنائیں گے ہم یہاں |
کہتے ہیں ماجرا دلِ بے اختیار کا |
طارق دیارِ غیر میں رکھتا ہے وہ خبر |
وہ آسرا ہے فضل کے امّید وار کا |
معلومات