مالک ہے وہ جو عالمِ نا پائے دار کا
سب حال جانتا ہے غریب الدیار کا
وقتِ سحر قریب ہے رخصت ہوئی ہے شب
لاتا ہے آفتاب زمانہ نہار کا
جاتی ہوئی خزاں کو کہیں الوداع اب
دستک ہے در پہ دے رہا موسم بہار کا
اب منتظر ہیں موت کے جھوٹے خدا سبھی
کرتے ہیں انتظام وہ اپنے مزار کا
دو چار جام میکدے سے اس کے پی لئے
اندازہ پھر ہوا ہمیں ان کے خُمار کا
ہم نے لباسِ عشق کیا جب سے زیب تن
دیکھا ہے حُسن پیرہنِ تار تار کا
کس کس کی داستان سنائیں گے ہم یہاں
کہتے ہیں ماجرا دلِ بے اختیار کا
طارق دیارِ غیر میں رکھتا ہے وہ خبر
وہ آسرا ہے فضل کے امّید وار کا

0
63