تضمین واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
از ابو الحسنین محمد فضل رسول
سَیْر ہیں دو جہاں جس سے، وہ ہے چَشمہ تیرا
جَوشِ رَحمت پہ سَخاوت کا ہے دَریا تیرا
اَغْنِیَا جس کے سُوَالی، وہ ہے صَدْقہ تیرا
واہ کیا جُود و کَرَم ہے شہِ بَطْحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
سب کو دیتے ہیں بُلا کے وہ ہے باڑا تیرا
نَعرے لگتے ہیں وَفا کے وہ ہے جَلْسہ تیرا
ڈَورے ہلتے ہیں قَضا کے وہ ہے سَجْدہ تیرا
دَھارے چلتے ہیں عَطا کے وہ ہے قَطْرہ تیرا
تارے کھِلْتے ہیں سَخا کے وہ ہے ذَرَّہ تیرا
کھاتا ہے سارا جَہاں روز نَوَالا تیرا
شَمْس ہے یا شہِ کَونین اُجالا تیرا
نُور ہے یا شہِ دارین حَوالا تیرا
فیَض ہے یا شَہِ تَسْنِیْم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تَجَسُّسْ میں ہے دَریا تیرا
اَنْبِیَا پاتے ہیں تَسْکیں، وہ ہے جَلوہ تیرا
اَوْلِیَا رَکھتے ہیں سَر پر، وہ ہے تَلوا تیرا
اَسْخِیَا کھاتے ہیں جِس سے، وہ ہے دانہ تیرا
اَغْنِیَا پَلتے ہیں دَر سے، وہ ہے باڑا تیرا
اَصْفِیَا چَلتے ہیں سَر سے، وہ ہے رَسْتہ تیرا
کیا دی ہیں آپ خدا نے سبھی تم کو شانِیں
کر گئے اہلِ جہاں تو فِدا اپنی جانیں
ہاں مَگَر یہ تِری نسبت کے عَدُو کیا مانیں
فَرْش والے تِری شَوکت کا عُلُو کیا جانیں
خِسْرَوَا عَرْش پہ اُڑ تا ہے پَھرِیرا تیرا
ہاں دِکھانی تھی سَبھی کو یوں خدا نے یہ شان
یہ فََلََک پر تھا ستاروں کا چَمَکتا عُنْوَان
اِبْتِدَا سے ہی سَجا تھا یہاں پر یہ سامان
آسماں خَوان زمیں خَوان زمانہ مَہمان
صاحبِ خانہ لَقَب کِس کا ہے تیرا تیرا
ہے خدا نے ہی دِیا ان کو بڑا رتبہ عَجیب
جو کسی کو نہ مِلا ہے نہ کوئی اتنا قریب
گر نہ کوئی، اسے مانے، تو یہ ہے اس کا نَصیب
میں تو مالِک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حَبیب
يعنی مَحبوب و مُحِب میں نہیں میرا تیرا
چُھوٹا جن سے تِرَا در خَيْر کا منہ کیا دیکھیں
دیکھ لیں جو تِرا در، دَیر کا منہ کیا دیکھیں
دیکھیں پَرواز تو وہ طَیْر کا منہ کیا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نَظروں پہ چڑھے دیکھ کے تَلوا تیرا
سر کا رتبہ کہاں، ان کے نہیں کوئی پا سا
کھوٹے سِکّے، کا کھَرا ان سے ملے گا پاسا
بھیک مانگوں، گا تو ان سے، نہ مِرا اور پاسا
بَحْرِ سَائل کا ہوں سَائل نہ کنویں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجہ مرا چھینٹا تیرا
اَب کہاں جائیں گُنَہ گار لے کے لَاف گَزاف
ڈھونڈیں اس کو جو کرے اپنے کَرَم سے یہ مُعَاف
جو گُنَہ گاروں کے سب کاموں پہ ہی ڈالے غِلَاف
چَور حاکِم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خِلاف
تیرے دامن میں چھُپے چَور اَنوکھا تیرا
دیکھتے ہی ہوں فِدا جس پہ ہَزاروں مَہْتَاب
ہر رَگِ جان بھی تَڑپا کرے مِثْلِ سِیْماب
دل سبھی اک ہی جَھلَک دیکھ کے ہو جائیں بے تاب
آنکھیں ٹَھنڈی ہوں جِگَر تازے ہوں جانیں سیراب
سچِّے سُورَج وہ دل آرا ہے اُجَالا تیرا
خَوفِ مَحْشَر سے ابھی دِل بھی ڈَرا جاتا ہے
اب عَمَل سَوچ کے تو سانس رُکا جاتا ہے
تیری رَحْمت کا بَھرَم، خوف اُڑا جاتا ہے
دل عَبَث خوف سے پَتَّا سا اڑا جاتا ہے
پَلَّا ہلکا سہی بھاری ہے بَھروسا تیرا
تیرا ہو کے بھی نہ چُھوٹوں تو خَجالت کِتْنِی
پوچھیں سب مجھ سے تِرے آقا کی رَحْمَت کِتْنِی
کیا کہوں میں کہ ہے آقا کی شفاعت کِتْنِی
ایک میں کیا مرے عِصْیَاں کی حقیقت کِتْنِی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اِشارہ تیرا
حَشْر کا چرچا بڑا، پر یوں تو شامت نہ پَڑی
ہر نصیحت بھی سنی تھی، کبھی قیمت نہ پَڑی
جانتا بھی تھا، عَمَل کی کبھی ہِمَّت نہ پَڑی
مُفْت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پَڑی
اب عَمَل پوچھتے ہیں ہائے نِکَمَّا تیرا
ہم نہیں رکھتے اَمیرانہ کہیں رشتہ، نہ مال
بس تری یادیں ذَخیرہ یہی کل مال و مَنال
کھائیں گے ہم اسی در سے ہمیں اب در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جِھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
ہم کو کافی ہے فقیری زرِ قیصر پہ نہ ڈال
تیرے در پر ہی پڑے ہیں کسی اور در پہ نہ ڈال
کھائیں گے تیرے نَوالے کسی دیگر پہ نہ ڈال
تیرے ٹُکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جِھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
دو مجھے جو سزا بھی اس کا سزاوار ہوں میں
ہوں برا بھی میں سیہ کار ہوں بے کار ہوں میں
کچھ عَمَل کا بھی خزانہ نہیں نادار ہوں میں
خَوار و بیمار و گُنہ گار و خَطاوار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لَقَب آقا تیرا
میری قِسْمَتْ جو ہےکھوٹی تو کَھری کردے کہ ہے
میری ہِمَّت میں ہے سُسْتی تو جَری کردے کہ ہے
میرے جُرموں کے ہیں دفتر تو بَری کر دے کہ ہے
میری تَقْدِیْر بُری ہو تو بَھلی کردے کہ ہے
مَحْوَ و اِثْبات کے دَفتر پہ کڑوڑا تیرا
تُو جَو چاہے تَو سَبھی آج غِطا دِل سے اُٹھیں
تُو جَو چاہے تَو اَبھی کان مِرے دِل کے سُنیں
تُو جَو چاہے تَو لَطَائِف یہ مِرے دِل کے کھُلیں
تُو جَو چاہے تَو ابھی مَیل مِرے دِل کے دُھلیں
کہ خُدا دِل نہیں کرتا کبھی مَیلا تیرا
ہم غَریبوں کی ہے بِپتا یہ بے حِس سے کہیے؟
کَب سُنے کوئی غَریبوں کی یہ جِس سے کہیے
جَو سُنے بھی تَو غَریبوں کی ہاں اُس سے کہیے
کِس کا منہ تکئے کہاں جائیے کِس سے کہیے
تیرے ہی قَدْموں میں مِٹ جائے یہ پالا تیرا
تُو نے عِرْفان دیا تُو نے سَعَادت میں لیا
تُو نے اِحْسان کیا تُو نے شَفَاعت میں لیا
تُو نے اِیْمَان دیا تو نے کَرَامت میں لیا
تُو نے اِسلام دیا تُو نے جَمَاعت میں لیا
تُو کَرِیم اَب کوئی پِھرتا ہے عَطِیَّہ تیرا
اَب گُزَارا ہے میں نے زِندگی کا سارا شَبَاب
ہاں مُکَمَّلْ ہو رہا ہے یوں مِرا سَب یہ نِصَاب
ہَو رہی ہے یُوں مُکَمَّلْ یہ کہانی کی کِتَاب
مَوت سُنتا ہوں سِتَم تَلْخ ہے زَہْرَابہِ نَاب
کَون لادے مُجھے تَلووں کا غُسَا لَہ تیرا
زِندگی ہو درِ سَرْکار پہ جَیسی گُزْرِے
میں پَڑا ہی رَہوں کاسَہ لئے اَیسی گُزْرِے
بَس فَقیروں مِیں مَیں شَامِل رہوں وَیسی گُزْرِے
دُوْر کیا جانئے بَد کار پہ کیسی گُزْرِے
تیرے ہی در پہ مَرے بے کس و تنہا تیرا
دُوْرِی میں میرے دلِ زَار پہ کَیسی گُزْرِے
دُوْرِی میں تیرے خَطَا کَار پہ کَیسی گُزْرِے
دُوْرِی میں اَیسے گُنَہ گَار پہ کَیسی گُزْرِے
دُور کیا جانئے بد کار پہ کَیسی گُزْرِے
تیرے ہی دَر پہ مَرے بے کَس و تَنْہَا تیرا
یہ زَمیں اور یہ فِضَا نُور تِرِے نے گھیری
عَرْش تَک ساری جَگَہ فیَض تِرِے کی پِھیری
رَاج ہے تیرا ، لگی آس تُجھی سے میری
تیرے صَدْقے مُجھے اک بوند بَہُت ہے تیری
جِس دن اَچَّھوں کو مِلے جام چَھلَکْتا تیرا
سَب تِرِی ہی دیں دُہائی، ہے تُو ہی جائے پَنَاہ
تیرے بِن کوئی نہ چَارہ، نہ کِسِی سے ہو نِبَاہ
یہ گَدَا تیرے، مِٹیں ان کے تِرِے صَدقے گُنَاہ
حرم و طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نِگاہ
جَوت پَڑتی ہے تِرِی نور ہے چھَنتا تیرا
رضْوِی لایا ہے رضا کا تُو یہ مَضمونِ رَفیع
کہاں سے سیکھا رضا نے ہے یہ اُسلوبِ مَنیع
ہے رضا کا جو وسیلہ وہ بڑا اونچا وَقیع
تیری سَرْکَار میں لَاتا ہے رضا اس کو شَفِیْع
جَو مِرا غَوث ہے اور لاڈَلا بیٹا تیرا
تضمین نگار :ابوالحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی

2
3886
ماشآء اللّٰہ عزوجل بہت خوب سبحان اللہ سبحان اللہ

شکریہ جزاکم اللہ خیرا کثیرا فی الدارین