آج دلبر نے سُنا ہے کہ یہ ارشاد کیا
آپ نے وقت کو یوں ہی نہیں برباد کیا
پہلے اپنوں کو بھی فرصت نہ ملی ملنے کی
اب تو گھر بیٹھ کے غیروں نے ہمیں یاد کیا
اس کے ہر ایک محلّے میں تمہارا گھر تھا
شہر اک ہم نے تصوّر میں جو آباد کیا
ہر نئے موڑ پہ امّید نئی دیتے ہو
ہم نے بھی وصل کی امّید پہ دل شاد کیا
لوگ پہلے بھی ہیں قُر بانِ محبّت ہوتے
عشق ہم نے بھی نئے روپ میں ایجاد کیا
دیکھ کر پھر تری صورت کو گماں ہوتا ہے
چاند نے خود کو ترے سامنے بیداد کیا
جانتا کاش کوئی دل کے نہاں خانے کو
اس میں اک شخص نے چپکے سے مجھے یاد کیا
طارق اس ہجر کے عالم میں انہی یادوں نے
قیدِ تنہائی سے آ کر ہمیں آزاد کیا

0
97