آج دلبر نے سُنا ہے کہ یہ ارشاد کیا |
آپ نے وقت کو یوں ہی نہیں برباد کیا |
پہلے اپنوں کو بھی فرصت نہ ملی ملنے کی |
اب تو گھر بیٹھ کے غیروں نے ہمیں یاد کیا |
اس کے ہر ایک محلّے میں تمہارا گھر تھا |
شہر اک ہم نے تصوّر میں جو آباد کیا |
ہر نئے موڑ پہ امّید نئی دیتے ہو |
ہم نے بھی وصل کی امّید پہ دل شاد کیا |
لوگ پہلے بھی ہیں قُر بانِ محبّت ہوتے |
عشق ہم نے بھی نئے روپ میں ایجاد کیا |
دیکھ کر پھر تری صورت کو گماں ہوتا ہے |
چاند نے خود کو ترے سامنے بیداد کیا |
جانتا کاش کوئی دل کے نہاں خانے کو |
اس میں اک شخص نے چپکے سے مجھے یاد کیا |
طارق اس ہجر کے عالم میں انہی یادوں نے |
قیدِ تنہائی سے آ کر ہمیں آزاد کیا |
معلومات