چل دیا بزم سے یوں سر کو جھکائے ہوئے کیوں |
اپنی آنکھوں میں، کوئی اشک چھپائے ہوئے کیوں |
آپ کو صرف شکایات ہیں سوچا بھی ہے کیا |
کل جو اپنے تھے وہ سب، آج پرائے ہوئے کیوں |
جی نہ سکتے ہوں اگر سر کو اٹھا کر تو کہو |
ہم پھریں بوجھ یہ شانوں پہ اٹھائے ہوئے کیوں |
چھوڑ جانے کا ترا فیصلہ خود کا ہے تو پھر |
تیری آنکھوں میں یہ بادل سے ہیں چھائے ہوئے کیوں |
جب نہیں واسطہ واعظ ترا ان گلیوں سے |
روز پھرتا ہے وہاں بال بنائے ہوئے کیوں |
میری گلیوں میں بھٹکتے ہوئے پھرتے تھے، وہ سب |
آج لگتے ہیں مجھے راہ پہ آئے ہوئے کیوں |
جب ملے، دکھ ہی ملے ان سے، خدا جانے بھلا |
پھر بھی ہیں دل کو مرے سب وہی بھائے ہوئے کیوں |
یہ کہانی تو تمہاری تھی، لگے مجھ کو حبیب |
سارے دکھ درد کے دن میرے بِتائے ہوئے کیوں |
معلومات