خدایا دشتِ الفت کا میں دریا پار کر جاؤں
وفاؤں میں مگن ہو کر ترا بن کے میں مر جاؤں
کہ اب تو بن چکی گل رخ مری عاشق نگاہوں کا
کہ میں بن خوشبو پھولوں کی ترے اندر بکھر جاؤں
خدارا معجزہ ہو ، تو بھلا بھی نا سکے مجھ کو
میں ایسے کچھ ترے خوابوں خیالوں میں اتر جاؤں
حوالوں سے سخن کی ہو محافل میں مری باتیں
محبت کی مثالوں کو رقم ایسے میں کر جاؤں
بہانے سے نہیں لگتا مرا دل کام میں اکثر
تمہیں بس دیکھنے پردیس سے واپس میں گھر جاؤں
بچھڑ میں نے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنا
کوئی حل تو بتاؤ نا کہاں بھٹکوں کدھر جاؤں
کبھی تو آزما مجھ کو میں تیرا کتنا حامی ہوں
فدا ہو کر تری خاطر میں ہر حد سے گزر جاؤں

2