ہم جہاں ہوتے ترا نام پکارا کرتے
تیرے بن جینا کہاں ہم بھی گوارا کرتے
زخم ہر روز ترے نام پہ سہتے گزری
ضبط ہر دور میں ہم درد کا دھارا کرتے
جان دے دیتے ہیں وہ عہدِ وفا کی خاطر
مرد میدان میں اترے نہیں ہارا کرتے
ہم کو عادت ہوئی طوفانوں سے ٹکرانے کی
اور کچھ دیر نہ ساحل سے کنارا کرتے
جو لئے چاک گریباں تری گلیوں میں پھرے
روح کے زخم سلانے کا بھی چارا کرتے
تیرے کاموں میں جو دن رات مگن رہتے ہیں
یہ فرشتے بھی کوئی کام ہمارا کرتے
طارق آیا وہ سرِ بام دکھایا جلوہ
حوصلہ ہی نہ ہوا دید کا یارا کرتے

0
6