سوچ تو ہے باعثِ ناکامیٔ تدبیر کون
روٹھ جائے جب خدا بدلے تری تقدیر کون
قتل کر کے اس لئے آزاد ہم کو کر دیا
خوں لگے ہاتھوں سے اب پہنائے گا زنجیر کون
کچھ نہ کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئی ہم سے بھی ہیں
اس قدر لکھتا ہے ورنہ خونچکاں تقدیر کون
کچھ انوکھی بات لکھ دی جائے تو دل کو لگے
چونکتا ہے ورنہ پڑھ کے عام سی تحریر کون
لوگ سنتے ہیں توجّہ سے اُسے مقبول جو
دیکھتے ہیں کر رہا ہے اس گھڑی تقریر کون
کون تھا گمنام جس کو جانتا کوئی نہ تھا
کر رہا ہے اس کی دنیا بھر میں اب تشہیر کون
ہم کسی پر اس لئے الزام دھر سکتے نہیں
“پابہ گِل ہیں سب رہائی کی کرے تدبیر کون”
دل میں اظہارِ بیاں کی بھی تو جرات چاہئے
دیکھ کر حالات یہ ہوتا نہیں دلگیر کون
طارق آزادی کی خاطر کام دے گفت و شُنید
دور بدلا ، ہاتھ میں لیتا ہے اب شمشیر کون

0
10