خدا کے قرب کی دولت ملی ہے ان فضاؤں میں |
کبھی ان کے سفر میں تھے، کبھی ہم تھے خطاؤں میں |
گماں پر کر لیا قائم، ہے دل آخر صنم خانہ |
گئے کھو کر حقیقت سے، رہے ہم بس جفاؤں میں |
ہے فطرت خود سراپا نور، لیکن ہم اندھیرے ہیں |
وہی ظلمت ہمارے ساتھ ہے وحشت دعاؤں میں |
وہ جو تھا میرے دل میں، اب کہاں اُس کا نشاں باقی |
خزا کا رنگ پھیلا ہے وہ خوابوں کی فضاؤں میں |
طلب تو بس خدا کی تھی، مگر دنیا میں کھو بیٹھے |
یہی تھا فیصلہ شاید، ہماری ان سزاؤں میں |
نہیں باقی رہا دل میں، کوئی اُمید کا پہلو |
وہ جھوٹی بات باقی ہے، ترے لطف و اناؤں میں |
خدا کو بھول بیٹھے ہیں، کہ ظلمت چھا گئی دل پر |
جو ہم نے روشنی ڈھونڈی، فقط اپنی خطاؤں میں |
جو ہم کو تھا یقیں اپنا، وہی اب غم کا باعث ہے |
کہ دل کو چین آتا ہے انہی کالی گھٹاؤں میں |
نہ جانے کیا یہ بے چینی، نہ جانے کیا یہ وحشت ہے |
کوئی پیغام پوشیدہ ہے دل کی ان صداؤں میں |
ہزاروں بار چاہا دل نے ترکِ آرزو کر دیں |
مگر پھر جھک گیا آخر، خطا کی التجاؤں میں |
مدبّر ہم جو آئے ہیں، کہاں جائیں، کدھر جائیں |
کوئی حاصل نہیں ملتا، ہماری ان وفاؤں میں |
معلومات