بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو |
نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو |
وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا |
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو |
کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے |
نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو |
بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے |
خیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو تو |
کِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے |
پڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تو |
نہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہ |
خیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو |
رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسو |
رشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تو |
رشِید حسرتؔ |
معلومات