ہم نے یوں عید منائی ہے کہ تم یاد آئے |
دوستی کیسی نبھائی ہے کہ تم یاد آئے |
تم کو دیکھے ہوئے اب ایک زمانہ گزرا |
دل نے تصویر دکھائی ہے کہ تم یاد آئے |
ہم نے سمجھایا قلم کو کہ نہ ہو ذکر کہیں |
اس نے تحریر لکھائی ہے کہ تم یاد آئے |
دوستی رشتہ ہی ایسا ہے بھلا سکتے نہیں |
تم نے کی اتنی بھلائی ہے کہ تم یاد آئے |
اک زمانہ تھا کہ ہم ساتھ رہا کرتے تھے |
پھر ہوئی ایسی جُدائی ہے کہ تم یاد آئے |
آنکھ سے دور ہوئے تم تو مری یادوں نے |
پھر غزل ایسی سنائی ہے کہ تم یاد آئے |
ہے یقیں تم جہاں رہتے ہو وہیں پر خوش ہو |
خوش رہو تم کو رسائی ہے کہ تم یاد آئے |
طارق آ جاتی ہے گر یاد تو خوش ہوتے ہیں |
ہم نے کب دی یہ دہائی ہے کہ تم یاد آئے |
معلومات