سمجھو یہ بات مختصر سی جان
آج موسم بہت ہی پیارا ہے
اودے بادل خنک ہوا بارش
دیکھ دل نے تجھے پکارا ہے
پھوٹتی ہے وہیں سے قوسِ قزح
آسماں کا جہاں کنارا ہے
آج مشکل بروزِ ابر بہت
اپنا مے کے بنا گزارا ہے
ہر تر و تازہ برگِ گل میں ہوا
حسن فطرت کا آشکارا ہے
کس مصور نے لے قلم منظر
شام کا ہاتھوں سے سنوارا ہے
امتحاں صبر کا دلِ مضطر
فرقتِ یار میں دو بارہ ہے
چھیڑی بلبل نے پھر غزل جیسے
ہم نوا سوزِ دل ہمارا ہے
دل ربائی میں ثانیٔ لاہور
دلی نے بلخ نے بخارا ہے
بات حسن و نزاکتِ گل کی
اصل میں ایک استعارہ ہے

0
181