رنجشیں ان سے پالتے ہی نہیں
شکوے اب ہم اچھالتے ہی نہیں
ہر گھڑی رنج و غم تعاقب میں
اور ہم ہیں کہ ٹالتے ہی نہیں
زخم دل میں سمیٹ لیتے ہیں
درد باہر نکالتے ہی نہیں
بانٹ دیتے ہیں روشنی ساری
گھر کو اپنے اجالتے ہی نہیں
کچھ نہ کچھ روز ٹوٹ جاتا ہے
اب اسے ہم سنبھالتے ہی نہیں
پاؤں چھلنی ہیں اپنے کانٹوں سے
ہم بھی ان کو نکالتے ہی نہیں
لغزشیں ہم کو سب لگیں شاہدؔ
ان کو لیکن مغالطے ہی نہیں

44