شہروں میں کیسے امن و اماں تک نہ رہ گیا
سامانِ عیش اور مکاں تک نہ رہ گیا
مجذوب بے نیازی کی حالت میں کہہ سکے
"ارض و سما کا کوئی نشاں تک نہ رہ گیا"
دنیا تو خواب سی ہے طلسماتی بس چمک
ارمانوں کا بھی اب یہ جہاں تک نہ رہ گیا
ہمراز جس کو جانے، وہی دھوکہ دے سکے
ان سے بھی رازِ عشق نہاں تک نہ رہ گیا
انسان لاشعوری میں ناصؔر بہک سکے
بھٹکے یہاں تو بولے، گماں تک نہ رہ گیا

0
60