اک بدبو دار جسم اٹھاتا رہا ہوں میں
جیتا رہا سزا یہی پاتا رہا ہوں میں
میں نے کسی کا خواب نہیں دیکھا تھا کبھی
لیکن سبھی کے خوابوں میں آتا رہا ہوں میں
دیکھی ہے تیرے ہجر میں جب سے یہ زندگی
خود کو وصال سے بھی ڈراتا رہا ہوں میں
یہ اور بات آ نہ سکا کوئی میرے تک
ہر شخص ہی کو ورنہ بلاتا رہا ہوں میں
ہاں اس کا جسم میری سہولت میں تو تھا پر
تا عمر اپنا جسم جلاتا رہا ہوں میں
ہر شخص بے وفا ہوا ہو ایسا بھی نہیں
چاہا جسے میں نے، اسے بھاتا رہا ہوں میں
وہ صرف چار روز رہی میرے ساتھ شیر
اور چار روز دل ہی دکھاتا رہا ہوں میں
نور شیر

0
61