کلامِ حق کا خلاصہ حسین اترے ہیں
زمیں کا قبلہ و کعبہ حسین اترے ہیں
کتاب ہونا تھا قلبِ رسول پر نازل
بہ قلبِ فاطمہ زہرا حسین اترے ہیں
یہ بھول ہے کہ وہ پیدا ہوئے زمانے میں
بہ شکل ناطق قرآں حسین اترے ہیں
یکم کو بنت علی اور چار کو عباس
کس اہتمام سے مولا حسین اترے ہیں
عنایتوں کی تو فطرس سے ابتدا ء ہوئی
کریں گے سب کا مداوا حسین اترے ہیں
کریں گے خود وہی جا کر حبیب کو زندہ
بقا کا آخری نسخہ حسین اترے ہیں
پکارے غازی نہ گھبرا زمین کرب و بلا
بنے گی تو بھی معلا حسین اترے ہیں
خوشی میں جھوم رہا ہے خود آج دین خدا
خدا کے دیں کا وظیفہ حسین اترے ہیں
جہالتوں کی ہر اک صنف آج فوت ہوئی
جہاں میں نور کا منبہ حسین اترے ہیں
اے حر نہ گھبرا رہائی کی ساعتیں ہیں قریب
ترے نجات دہندہ حسین اترے ہیں
اسی لیے تو ہے خالق نے خیر خلق کہا
بشر کے روپ میں مولا حسین اترے ہیں
فقط حسین ہے تسکین دل تری حیدر
تمہارے دل کے مسیحا حسین اترے ہیں

0
24