کرم کی جہاں بھی نظر جاتی ہے
جو بگڑی ہے قسمت سنور جاتی ہے
جلائے ہیں جس نے بھی یادوں کے دیپ
شبِ ہجر اس کی گزر جاتی ہے
عمل میرے ہر دم نِرے خام ہیں
بڑی اس سے حالت بگڑ جاتی ہے
مگر امتی ہوں نبی پاک کا
امیدوں کی جن تک سحر جاتی ہے
سہارا تلاطم میں ان کا کرم
یہ ناؤ اسی سے اُبھر جاتی ہے
سدا دان ہادی جہاں فیض کا
جہاں دیکھیں رحمت ادھر جاتی ہے
اے محمود ان کی عطا عام ہے
یہ قدرت سے سب کو خبر جاتی ہے

36