نا کام محبت کی اتنی سی کہانی ہے |
دن رات جدائی میں اشکوں کی روانی ہے |
کیا تم سے کہوں دلبر اِس دل کی فغانی کو |
بس آہ ہے نالے ہیں زخموں کی جوانی ہے |
ہم نے تو محبت میں ہر چیز لٹا دی ہے |
لیکن وه ہیں یہ کہتے آفت ابھی آنی ہے |
کی ہم نے محبت تو یہ بات سمجھ آئی |
فریاد ہے وحشت ہے جو 'هو' کی زبانی ہے |
غارت گری پے اس کی دل خون سے رویا ہے |
افسوس ہے ماتم ہے اور آه و فغانی ہے |
بیچا ہے سکونِ دل اور درد خریدا ہے |
دنیا ہے یہ وحشت کی اور شعلہ فشانی ہے |
ہر زخم مِرے دل کا ہنس ہنس کے یہ کہتا ہے |
دی اس نے وفاؤں کی کیا خوب نشانی ہے |
ہم نے جو کیا شکوه نا کام محبت کا |
اس نے کہا یہ ہنس کر جھوٹی یہ کہانی ہے |
دھوکا میری صورت سے محبوب نہ تم کهانا |
ہوٹوں پہ ہنسی گر ہے آنکھوں میں تو پانی ہے |
یادیں ہیں جو دلبر کی، مٹ جایں نہ وه دل سے |
وه زیست کا حصہ ہے وحشت کی نشانی ہے |
حالت پہ مری دیکھو ماتم ہے صبا کرتی |
یہ میری محبت کی دلسوز کہانی ہے |
واجب ہے اثر تم پر جاں اپنی لٹا ڈالو |
دستورِ محبت کی یہ رسم پرانی ہے |
معلومات