خزاں خزاں تھی فضا، موسمِ بہار آیا
زمیں پہ آج کوئی آسماں وقار آیا
جو لب پہ نام محمدؑ کا ایک بار آیا
خیال بارہ محمدؑ کا بار بار آیا
دوبارہ دید کی خواہش جوان ہونے لگی
جو ہو کے روضۂ مرسل پہ ایک بار آیا
اسی کا کیف مری زندگی پہ چھایا ہے
میں چند لمحے مدینے میں جو گزار آیا
زہِ نصیب جو پیغمبروں کا ناصر تھا
مدد کے واسطے میری وہ بار بار آیا
حبیب، مردِ فقیہ! آپ پر ہزاروں سلام
نبی کے حصہ میں ایسا نہ جانثار آیا

0
11