| ماں |
| یہ مرا ایمان میری روح کا احساس ہے |
| گو تجھے دیکھا نہیں پر ماں تُو میرے پاس ہے |
| کیسی ہو گی شکل تیری کیا سراپا تھا ترا |
| ناک آنکھیں ہونٹ چہرہ کیسا ہے ماتھا ترا |
| آج موقع ہے تو سُن غافل کھڑا پچھتائے گا |
| ماں چلی جائے گی تیرے پاس کیا رہ جائے گا |
| سارے رشتے ہیں غرض کے کیا بہن کیا بھائی یار |
| ماں سراپا پیار ہے بس پیار ہے بس پیار پیار |
| کس قدر وہ اِنس و جاں بد قسمت و بد بخت ہیں |
| بات کرتے وقت ماں سے جن کے لہجے سخت ہیں |
| اس سے بڑھ کر اور کیا ماں کو ترا احساس ہو |
| چومتی ہے مونہہ ترا جب ہاتھ میں سنڈاس ہو |
| سُن لیں گوشِ ہوش سے بچّے کہ جب مرتی ہے ماں |
| قبر میں بھی لیٹ کر ربّ سے دعا کرتی ہے ماں |
| روٹھ جائے ماں تو لوگو رُوٹھ جائے گا خدا |
| یا کہیں سے لاؤ جا کر اور کوئی ما سوا |
| میرا جسم و جان اس پر شاہد و مشہود ہے |
| آپ کے دم سے ہی ماں راقم یہاں موجود ہے |
معلومات