جادۂ حق پر سدا قائم رہا تیرا قلم
کیا عروسِ انجمن کیا خانقاہوں کے علم
حالی و اکبر کا بھی مخفی نہیں رنج و الم
پر ترے شعروں سے مَیں سمجھا جہادِ بالقلم
تیرا ہر شعر و سخن تو عظمتِ اسلام ہے
پس چہ باید کرد گویا امن کا پیغام ہے
تیرے ہر نوکِ قلم میں کیا عجب تاثیر تھی
جُنبشِ خامہ سے لرزاں سلطنت نخچیر تھی
تُو اگر چاہتا تو تیرے ہاتھ میں تقدیر تھی
مال و زر تھا سروری تھی مفت کی جاگیر تھی
پر ترا رُوئے سُخن بس مرکزِ اقرا رہا
قوم پر نظریں رہیں دِل جانبِ بطحا رہا
ہم ترے مقروض ہیں یہ برملا اقرار ہے
تیرے شاہینوں سے پہنائے فلک بیزار ہے
طائرِ لاہوت سے طاہر کوئی مردار ہے
پیرِ رومی کی حدیثِ آرزو بیکار ہے
مطلعِ انوار ہے نہ جادۂ حق کا گداز
عشقِ بر دوشِ غلاماں عقل بر ترکانِ تاز
جعفر و صادق کی پاکستان میں بھر مار ہے
قوم ہے زیرِ نگوں تو سر نگوں سرکار ہے
ایک بازو کٹ گیا ہے دوسرا بے کار ہے
اس سے اگلا مرحلہ کچھ اور بھی دشوار ہے
کاش کوئی جانتا کس بات پہ معتوب ہیں
سرورِ اقدس ہیں نالاں اسلئے مغضوب ہیں
ہر عمارت میں تری فوٹو پہ تیرا نام ہے
بس یہی اقبال کا پیغامِ خاص و عام ہے
رشوتیں ہیں چور بازاری ہے قتلِ عام ہے
تیرے خوابوں کی زمیں دشنام ہے بدنام ہے
تیرے سپنوں کا نگر مسمار ہے ویران ہے
خواب تو بس خواب تھا تعبیر پاکستان ہے
حذف کر دے قرطبہ کی نظم اے پروردگار
گر دلم آئینہ والے شعر بھی کر لے شمار
جب بھی پڑھتا ہوں انہیں قلب و جگر میں انتشار
ہر گھڑی کُڑھنا تڑپنا ہر زماں سینہ فگار
یا مجھے عصرِ رواں کی حسرتوں پر چھوڑ دے
یا مرا اقبال سے مضبوط رشتہ جوڑ دے

0
9