ہستی کو فیض اقدس بطحا سے آ رہا ہے
رونق ہے جو جہاں کی اور نور کی فضا ہے
گلشن میں اس دہر کے انوار جس سے پھیلے
اب آرزو میں مولا بطحا کی وہ جگہ ہے
یادِ نبی سکوں ہے ہستی کے ہر کراں کا
راحت ہے جو دلوں کی اور سینے کی ضیا ہے
مقبول کار ہے جو پہلے کسی عمل سے
وہ ہے درود ان پر اور ان کی ہی ثنا ہے
نامِ نبی اے ہمدم تریاقِ روح بھی ہے
دیتا ہے زندگی وہ جس کو سدا بقا ہے
جس فیض سے ہے رونق ہستی کے ہر کراں تک
اس دان سے دلوں میں ہر آن ہی ضیا ہے
ہر جاں کو تازگی ہے سرکار کے کرم سے
یکتا حبیبِ داور کب کوئی دوسرا ہے
ہر حزن کی ہے دافع یادِ لبیبِ ربی
جن کے ذکر سے ملتی ہر روگ کی شفا ہے
محمود شہرِ جاناں دل جاں جہان کا ہے
ایسی کہاں دہر میں اک دوسری فضا ہے

42