اور نہیں کچھ بس اتنا ہی کافی ہیں
اس کی آنکھ کا نظارہ ہی کافی ہے
بات نا بھی ہو اس سے
ہو جائے دیدار اتنا ہی کافی ہے
دل تو کہتا ہے تیرا ساتھ عمر بھر کا
ہو اک پل کی ملاقات اتنا ہی کافی ہے
اوروں کے لیے تو وہ ٹھہرا ہے لقمان
زخموں کی میرے دوا بنے اتنا ہی کافی ہے
لوگوں سے تو وہ ملتا ہے روبرو ہر روزِ
میرے خواب میں آئے اتنا ہی کافی ہے
ظالم عشق سے میں نے کیا لینا دینا
بس سمجھ آ جائے اتنا ہی کافی ہے
لکھ دیتا ہوں جو دل میں باتیں ہیں ندیم
آنکھ میں آنسو نہ آ جائیں اتنا ہی کافی ہے

0
93