سرِ میداں کسی ہشیار کو لایا جاۓ
جہاں خاموش ہے اب شور مچایا جاۓ
طنز اوروں پہ یوں کرنا تو ہے آسان مگر
کبھی خود پر بھی تو لوگوں کو ہنسایا جاۓ
غیر ممکن سے یہاں غیر نکل جاتا ہے
کام دنیا کو یہ اب کرکے دکھایا جاۓ
منزلیں دور ہیں دریا بھی نکل آیا ہے
کیوں نہ اک رستہ ہی پانی پہ بنایا جاۓ
زخم لگتے ہیں تو خوشیوں کی بہار آتی ہے
اب اسی بات پہ اک زخم لگایا جاۓ
جن چراغوں سے ہیں روشن یہاں الفت کی زمیں
ان چراغوں کو یوں ہرگز نہ بجھایا جاۓ

0
30