جدا ہیں جدا ہیں، خدا سے جدا ہیں
ہماری یہ راہیں، خدا سے جدا ہیں
نہ دل میں سکوں ہے، نہ آنکھوں میں نیندیں
یہ سب بد دعا ہیں ، خدا سے جدا ہیں
جو سجدے تھے روشن، وہ اب مٹ گئے ہیں
وہ سب التجا ہیں ، خدا سے جدا ہیں
ہوا میں ہے وحشت، فضا میں ہے زہر
یہ کیسی صدا ہیں ؟ خدا سے جدا ہیں
نہ بندوں سے رشتہ ہے افشین دل کا
یہ کیسی وفا ہیں؟ خدا سے جدا ہیں
بدن کو بھی اب روح سے کیا تعلق
یہ ساری جفا ہیں، خدا سے جدا ہیں
قلم بھی خموشی کی چادر میں لپٹا
خیال و نوا ہیں، خدا سے جدا ہیں
عبادت ہے لیکن فقط رسم و رواج
یہ سب مدعا ہیں، خدا سے جدا ہیں
دلوں میں چھپی نفرتوں کے جو منظر
یہی آئینہ ہیں، خدا سے جدا ہیں