اگر میں کسی شام لکھوں تجھے
تھل کی دھرتی پہ بیٹھ کے
تو پھر ڈوبتا سورج تھم جائے گا
روشنی پھیلنے لگے گی
ریت بھی جھومنے لگے گا
ہر ذرے کو تیرا خمار چڑھے گا
میں لکھوں گا جب تیری وفا پہ
وہ چرواہا جو ایک ٹانگ سے معزور ہے
وہ بھی حق حق کہہ کر ناچے گا
بچوں کو تیرے قصے انگلیوں پر
یاد ہونگے، تیری کہانیوں سے
کتنوں کے چولہے جلیں گے۔
وہ پھول جو صحرا میں نہیں لگتے
وہ بھی آج یہاں جگمگاتے ہیں
تم ایک لوگوں کی آس ہو ،
پرندوں کی پیاس ہو۔
تم خاص ہو
ہر کوئی چاہے کہ یہ پاس ہو۔
تم گہرے سمندر سے بھی گہرا راز ہو
راز ہو روشنیوں کا، اڑتی ہوئی تتلیوں کا
جگنوؤں کا، پھولوں کے غنچوں کا،
کسان کی زمین کا،
دور کسی خیمے میں موجود مکیں کا،
تم ہی ہو جس کی چاہت ہے مجھے
تم ہی ہو جسے جینا چاہوں میں
تم ہی ہو جس کے بن سب ادھورا ہے
تم ہی ہو جو ہے تو سب ہے۔
تم ہی مسکراہٹ تم ہی ہو روشنی،
تم ہی چاندنی تم ہی راگنی،
اور تم ہی تو زندگی ہو،
زندگی تمہیں سے ہے، اور تمہیں زندگی ہو ۔

0
58