| اب تو بس بے خودی سی رہتی ہے |
| جانے کیوں بے بسی سی رہتی ہے |
| کھل کے جینا ہی بھول بیٹھا ہوں |
| اب طبیعت بجھی سی رہتی ہے |
| میل چشمے پہ جم گیا ہو تو |
| ہر طرف گندگی سی رہتی ہے |
| کتنے چہرے ہیں ایک چہرے پر |
| معرفت اجنبی سی رہتی ہے |
| شر پسندوں کا بول بالا ہے |
| اب شرافت دبی سی رہتی ہے |
| جھوٹ کی ہر طرف حکومت ہے |
| سچ کی گردن جھکی سی رہتی ہے |
| دل میں اخلاص ہو اگر طیب |
| ہر طرف روشنی سی رہتی ہے |
معلومات