درد کی داستاں لوگوں کو سناؤں کیسے
سننے والا ہی نہیں شور مچاؤں کیسے
دل کا رشتہ کبھی یک طرفہ نہیں ہو سکتا
میں جو چاہوں بھی اگر اس سے نبھاؤں کیسے
میں زمانے سے تو تنہا ہی لڑا ہوں اب تک
گھر کے افراد سے اس گھر کو بچاؤں کیسے
خواب دیکھا نہیں میں نے کوئی پورا اب تک
آدھے خوابوں سے میں اب پیچھا چھڑاؤں کیسے
جھک گئی میری کمر بوجھ ہے اتنا شاہدؔ
آسرا کوئی نہیں اب بوجھ اٹھاؤں کیسے

0
34