تم کو دیکھوں تو مری جان میں جاں آتی ہے
ورنہ ہونٹوں پہ مرے روز فغاں آتی ہے
زندگی چین سے کٹ جائے غنیمت سمجھو
سب کے حصے میں یہ نعمت بھی کہاں آتی ہے
لوگ دنیا کی محبت میں ہیں مصروف بہت
اب خداکی بھی کبھی یادکہاں آتی ہے
چلتی پھرتی ہوئی تہذیب کے خواہشمندوں!
ہم کو دیکھو کہ ہمیں اردو زباں آتی ہے
یاد بھی ان کی مجھے بھول گئی ہے کشفی
کوئی پوچھے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر رضوان کشفی۔۔پلسی ایوتمحل، مہاراشٹر۔انڈیا

47