تم آئینے کے سامنے جاؤ گے پھر کبھی
باطن بھی اپنا سامنے لاؤ گے پھر کبھی
تم نے کیا نہ گر کبھی دستِ طمع دراز
مایوس ہو کے سر نہ جھکاؤ گے پھر کبھی
اپنی محبّتوں سے کرو گے جو انحراف
تم زندگی میں چین نہ پاؤ گے پھر کبھی
تم سے کریں گے ہم نہ شکایت کبھی نہ کی
ملنے جو آ نہیں سکے آؤ گے پھر کبھی
آ تو گئے ہو اس کی محبّت کو چھوڑ کر
تم اس کی بارگاہ میں جاؤ گے پھر کبھی
حسن و جمالِ یار کی دیکھی ہے اک جھلک
نظّارۂ جلال بھی پاؤ گے پھر کبھی
تم جاگتے میں دیکھتے ہو کہکشاں کے خواب
اس دور میں تو چاند پہ جاؤ گے پھر کبھی
طارق تم اس کے ذکر پہ خاموش ہو گئے
شاید جو دل پہ بیتی سناؤ گے پھرکبھی

0
55