| بے ہنگم سے شور و غل میں کتنی ہم آہنگی دیکھی |
| سر والوں کی ہراک دھن کی دھن سے خانہ جنگی دیکھی |
| ایوانوں سے باہر ہم نے مستوں کی بد مستی دیکھی |
| اور جب ایوانوں میں جھانکا، ہم نے دھینگا مشتی دیکھی |
| جس بستی میں سب بے رنگے رنگیلے کہلائے جائیں |
| اس بستی میں کہتے سنتے رنگی کو نارنگی دیکھی |
| رہتے ہیں بستی میں کتنے بنگلے پیسے والے لیکن |
| کس نے کچی آبادی والوں کی تنگی ترشی دیکھی |
| اِس کے ا±س کے منہ سے سن کر باتیں پھیلانے سے پہلے |
| سچ کہنا کیا میں نے تم نے سچائی بھی پرکھی دیکھی |
| صبحِ دم سورج مشرق کا مغرب سے کیا آ نکلا تھا |
| گھر کے دروازے پر میں نے صورت خوابوں دیکھی دیکھی |
| بے محنت سونا، چاندی، پیتل، تانبا، کیا ہیرا، موتی |
| مل جائے تو سب دھن دولت، عزت، پھوٹی کوڑی دیکھی |
| دل والوں کی بستی میں سب ہم نے اندھے بہرے دیکھے |
| اور الفت، سب الفت کرنے والوں سے بے بہری دیکھی |
| باہر آنے کی کوشش میں ہر ناکامی پر دل بولا |
| شیطانی دلدل کی تجھ سے یاری کتنی پکی دیکھی |
| دنیا کی ساری جھیلوں میں جب اترا تو میں نے جانا |
| گہرائی اُن جھیل آنکھوں کی سب جھیلوں سے گہری دیکھی |
| گاو¿ں کے کچے رستوں پر سب کو ہنستے گاتے پایا |
| شہروں کی پختہ سڑکوں پر ہر سو افرا تفری دیکھی |
معلومات