ہم کو مسافروں سے شکایت نہیں رہی |
حاصل ہمیں کسی کی حمایت نہیں رہی |
باتیں نہ اتحاد کی تم ہم سے کیجیے |
ہو اتصالِ بزم سرایت نہیں رہی |
ہنس کر گزار دیں گے ہم ایام اضطراب |
اب ہم کو اس جہاں سے شکایت نہیں رہی |
اس رہ گزارِ زیست میں تنہا نکل پڑا |
موجود اس جہاں میں ولایت نہیں رہی |
پاس و لحظ، توجہ کی غیروں نے بیشتر |
احباب کو ہماری رعایت نہیں رہی |
بس اک نظر کے واسطے ترسے تمام عمر |
ان کے نظر کی ہم پہ عنایت نہیں رہی |
اب لوگ مے کدوں میں بھٹکتے ہیں آج کل |
شاید کہ زندگی میں ہدایت نہیں رہی |
معلومات