اک وبا جو نفرتوں کی آئی ہے
موت شاید الفتوں کی آئی ہے
کس طرف جاؤں بتا مولا مِرے
ہر طرف شاہی بُتوں کی آئی ہے
عقل و دِل اک دوسرے سے لڑتے ہیں
جب سے منزل وحشتوں کی آئی ہے
بخش بھٹکوں کو ہدایت اے خدا
پستی پھر سے حکمتوں کی آئی ہے
بھیج پھر کوئی حبیب اپنا خدا
جہل پچھلی امتوں کی آئی ہے
صبح نو کر دے عطا ہم کو کہ اب
جان لب پے حسرتوں کی آئی ہے
دامنِ یزدان زیدؔی پکڑے رکھ
رُت سہانی رحمتوں کی آئی ہے

0
58