غم بیچتا ہوں کوئی خریدار گر ملے
امن و سکون وار دوں لاچار گر ملے
گر ہو سکے نہ تیرے غموں کا کوئی علاج
خوشیوں کے مول تول دوں غمخوار گر ملے
رنج و الم سے کیا گِلہ مجھ کو بایں ہمہ
کر لوں قبول شوق سے اک بار گر ملے
بستی میں دُور دُور تک کوئی مکاں نہیں
سر پھوڑنے کا شوق ہے دیوار گر ملے
دریا عبور کرنے کو تیّار ہوں ندیم
اِس پار جو نہ مل سکا اُس پار گر ملے
اکثر ہجومِ دوستاں رہتا ہے آس پاس
دل کو سکون ملتا ہے دلدار گر ملے
ناراض ہو گا مجھ سے صنم ورنہ مَیں امید
سر پھوڑ دوں رقیب کا اوزار گر ملے

118