زمانے کو یہ کیا ہوئے جا رہا ہے
یہ سوئے اجل ہی چلے جا رہا ہے
جدا کر چکا دین و دنیا کو زاہد
یہ نادان اب کیا کیے جا رہا ہے؟
یہ بھی دورِ حاضر کا اک کھیل ہے کیا؟
فسادِ زمن ہی بڑھے جا رہا ہے
رہا خوفِ ایزد نہ دل میں کسی کے
یوں مُسلِم بھی کافر بنے جا رہا ہے
'خرابی ہے تو بس زمانے ہی کی ہے'
یہی ہر کوئی بس کہے جا رہا ہے
کہیں ہے جدل تو کہیں جنگ ہے تحسینؔ
تو ہے کہ یہ غزلیں لکھے جا رہا ہے
نہیں دور آزاد رائے کا تحسینؔ
تُو تو نکتہ چینی کیے جا رہا ہے

8