فرقتِ دوست جائے دوبھر ہو
قطرہ خود کا مٹا، سمندر ہو
بھول جائے گا جب تُو خود ہی کو
تب کہیں جاکے عشق ازبر ہو
دل لگی ابتدا فسانے کی
سچا عشق اس کتھا کا آخر ہو
گھاو دل کا نظر سے اوجھل ہے
برکھا اشکوں کی سب پہ ظاہر ہو
عشقِ جاناں میں استقامت رکھ
دھرا گلے پہ چاہے خنجر ہو
کھوجتا چار سُو رہا ہوں اُسے
ہو نہ ہو یار میرے بھیتر ہو
جس کے کارن بہا سخن دریا
ہے یقیں، تم وہی قلندر ہو
اصل میری ہے مُشتِ خاکِ حجاز
پر ہیں سارے بضد کہ ڈوگر ہو

114