فرقتِ دوست جائے دوبھر ہو |
قطرہ خود کا مٹا، سمندر ہو |
بھول جائے گا جب تُو خود ہی کو |
تب کہیں جاکے عشق ازبر ہو |
دل لگی ابتدا فسانے کی |
سچا عشق اس کتھا کا آخر ہو |
گھاو دل کا نظر سے اوجھل ہے |
برکھا اشکوں کی سب پہ ظاہر ہو |
عشقِ جاناں میں استقامت رکھ |
دھرا گلے پہ چاہے خنجر ہو |
کھوجتا چار سُو رہا ہوں اُسے |
ہو نہ ہو یار میرے بھیتر ہو |
جس کے کارن بہا سخن دریا |
ہے یقیں، تم وہی قلندر ہو |
اصل میری ہے مُشتِ خاکِ حجاز |
پر ہیں سارے بضد کہ ڈوگر ہو |
معلومات