زندگی یہ نامکمل گزری ہے
خواہشیں ساری ادھوری رہ گئیں
ہم گلہ بھی تجھ سے آخر کیا کریں
رنجشیں ساری ادھوری رہ گئیں
تو نے چھوڑا لاکے ایسے موڑ پر
چاہتیں ساری ادھوری رہ گئیں
راستوں سے اب مجھے لگتا ہے ڈر
منزلیں ساری ادھوری رہ گئیں
تجھ کو جاں اپنی بنانے کی مری
سازشیں ساری ادھوری رہ گئیں
رو کے مانگی تھیں دعائیں رب سے جو
مَنّتیں ساری ادھوری رہ گئیں
خواب میں بھی تُو کبھی ملتا نہیں
کروٹیں ساری ادھوری رہ گئیں
خواب اِک آدھا ادھورا رہ گیا
وحشتیں ساری ادھوری رہ گئیں
راس تیرے ہونٹوں کی گرمی نہیں
حِدّتیں ساری ادھوری رہ گئیں
زندگی بھر ہم رہے یوں تشنہ لب
حسرتیں ساری ادھوری رہ گئیں
بارہا دیکھی جو تیری تیرگی
نفرتیں ساری ادھوری رہ گئیں
ختم ہونے کو ہے اپنا یہ سفر
ہِجرتیں ساری ادھوری رہ گئیں
اب نہیں وہ شخص میں تھا جو کبھی
مِدحتیں ساری ادھوری رہ گئیں
عاشقی یوں خاک میری ہوگئی
شِدّتیں ساری ادھوری رہ گئیں
(درویشؔ)

0
332