مضرابِ تارِ زیست ترانے حضور کے
دائم رواں دہر میں زمانے حضور کے
حسن و جمالِ مصطفیٰ اوجِ کمال ہے
پنہاں خدا کے علم میں ٹھانے حضور کے
جب جستِ شوق نے کئے سب پار فاصلے
قوسین تک ہیں طے ہوئے آنے حضور کے
رازِ دنیٰ کو خیر سے مولا ہے جانتا
رتبے نہیں ہیں خلق نے جانے حضور کے
تاباں جہانِ دہر ہیں فیضِ حبیب سے
قدرت سے پور سب ہیں خزانے حضور کے
اعلیٰ خدا نے خود کئے اوصاف مصطفیٰ
روشن ہوئے کمال ہیں آنے حضور کے
محمود فیضِ مصطفیٰ ہستی پہ عام ہیں
ہیں شادماں زماں یہ بہانے حضور کے

0
12