آزمائشیں ڈھیروں ، تجربے ہزاروں ہیں
صبحِ عشق کے پیچھے ، رتجگے ہزاروں ہیں
اِن جوان آنکھوں میں، اِن سلگتے سینوں میں
بے شمار طوفاں ہیں، زلزلے ہزاروں ہیں
وہ بھی کیسے دن تھے ہم، تتلیاں پکڑتے تھے
زندگی میں اب یارو ، مسئلے ہزاروں ہیں
عشق کے سمندر کی، خاص بات یہ بھی ہے
کوئی اِک اُبھرتا ہے، ڈوبتے ہزاروں ہیں
ہائے حسنِ جاناں کی ، وسعتوں کا کیا کہنا
ایک مرکزہ ہے اور ، دائرے ہزاروں ہیں
اِک حیاتؔ ہم ہی بس، عشق میں نہیں برباد
غم زدہ بہت سے ہیں ، دل جلے ہزاروں ہیں

0
69