آزمائشیں ڈھیروں ، تجربے ہزاروں ہیں |
صبحِ عشق کے پیچھے ، رتجگے ہزاروں ہیں |
اِن جوان آنکھوں میں، اِن سلگتے سینوں میں |
بے شمار طوفاں ہیں، زلزلے ہزاروں ہیں |
وہ بھی کیسے دن تھے ہم، تتلیاں پکڑتے تھے |
زندگی میں اب یارو ، مسئلے ہزاروں ہیں |
عشق کے سمندر کی، خاص بات یہ بھی ہے |
کوئی اِک اُبھرتا ہے، ڈوبتے ہزاروں ہیں |
ہائے حسنِ جاناں کی ، وسعتوں کا کیا کہنا |
ایک مرکزہ ہے اور ، دائرے ہزاروں ہیں |
اِک حیاتؔ ہم ہی بس، عشق میں نہیں برباد |
غم زدہ بہت سے ہیں ، دل جلے ہزاروں ہیں |
معلومات