تیری آنکھوں کا وہ اشارہ کیا تھا
ڈوبا ہوں میں تو وہ کنارہ کیا تھا
آس پر گزری ہے شبِ ہجراں میری
تُو نہیں تھا تو وہ سہارا کیا تھا
شہر کی خاموشی میں آواز گونجی
تھا نہیں ماتم تو وہ نقارہ کیا تھا
سمت بتلانے کو جو تھا روز آتا
تُو نہیں تھا تو وہ ستارہ کیا تھا
ساتھ تیرا تھا جب تو سب کچھ تھا اپنا
تُو نہیں اپنا تو ہمارا کیا تھا
ہمایوںؔ

0
88