| جانے کب ہوگی جدائی کی عدت پوری |
| یاد کی شب میں اُترتی ہے وحشت پوری |
| کتنے وعدے تھے، مگر تم نے نبھائے کب ہیں |
| رہ گئی دل کی تمنا، نہ حسرت پوری |
| میرے اشکوں نے جلایا ہے چراغِ غم کا |
| کیا تمہیں دکھتی نہیں، یہ ہے حقیقت پوری |
| وقت ظالم ہے، مگر صبر بھی لازم ہے ہمیں |
| کتنی باقی ہے بتا دو، یہ مدّت پوری |
| دل تو کرتا ہے کہ لکھ ڈالوں کتابِ ہجراں |
| پر کہاں ہو سکی الفت کی آیت پوری |
| کب سنے گا کوئی زیدی کی صدائے ہجراں |
| ہو چکی دل میں مگر اک بغاوت پوری |
معلومات