اوج سے صاحبِ مقام ہوئے |
گِر کے مرنے کو لبِ بام ہوئے |
جان دے کر کسی کے نام ہوئے |
تب یہ قصے لبوں پہ عام ہوئے |
چند لمحے جو ہم کلام ہوئے |
سارے شکوے گلے تمام ہوئے |
بزمِ غفلت تھی بھول ہو جاتی |
یاد رکھنے کے اہتمام ہوئے |
بھول جانے کی شرط رکھی گئی |
یاد رکھنے کے دن دوام ہوئے |
رازِ دل کھول کر نہیں معلوم |
جرم کتنے ہمارے نام ہوئے |
چپ رہے دن اگرچہ شام تلک |
شبِ ہجراں سے ہم کلام ہوئے |
عین ممکن ہے ہوسکے نفرت |
ساتھ الفت کے جب تمام ہوئے |
متصل موت سے حیات رہی |
حادثے تھے کہ ہم خرام ہوئے |
موت کی جب حلال سوچ گئی |
زیست کے روز و شب حرام ہوئے |
معلومات