جنم دن پر ہم کو نذرانہ محبت کا ملا
کچھ تو جاناں سے ہمیں انعام فرحت کا ملا
خواہشِ دیرینہ اک دن اپنی پوری ہو سکی
شکر ہے پیغام آخر آج الفت کا ملا
انتظارِ یار میں بےچینی کا اظہار تھا
پھر سلامِ عشق جُھک جُھک کر عقیدت کا ملا
خوب ہوتی ہے حفاظت اُن کے ہر سوغات کی
ہے بھی سر آنکھوں پہ جو تحفہ مسرت کا ملا
ٹیس گہری دل میں اُٹھتی ہے اگر یادیں نہ ہوں
بھول جانے سے ہی اُن کو رنج حسرت کا ملا
کیوں نہ احساں مند ناصؔر ہو سکے اس بات پر
بزمِ عشرت میں جو دعوت نامہ شرکت کا ملا

0
62