غیر کے در پہ بھی سوال نہ کر
ہاتھ پھیلانے کا خیال نہ کر
وصل کی خواہشیں پنپ رہی ہوں
"حسرتوں کو مری حلال نہ کر"
دُکھ کا طُوفان اُٹھ کھڑا ہو گر
غم شکستہ کبھی یہ حال نہ کر
جانے ناکامیابی کی وجہ ہم
ہار پانے سے پر ملال نہ کر
قسمیں وعدہ نبھانے کی کھائیں
اب مُکرنے کا تُو کمال نہ کر
وقتِ فرصت ہے کچھ صنم سوچے
رت ملن کی ہے پھر وصال نہ کر
دھیان ناصؔر ہو حرکتوں پر بھی
ہو گزارش نئی سی چال نہ کر

0
85