غیر کے در پہ بھی سوال نہ کر |
ہاتھ پھیلانے کا خیال نہ کر |
وصل کی خواہشیں پنپ رہی ہوں |
"حسرتوں کو مری حلال نہ کر" |
دُکھ کا طُوفان اُٹھ کھڑا ہو گر |
غم شکستہ کبھی یہ حال نہ کر |
جانے ناکامیابی کی وجہ ہم |
ہار پانے سے پر ملال نہ کر |
قسمیں وعدہ نبھانے کی کھائیں |
اب مُکرنے کا تُو کمال نہ کر |
وقتِ فرصت ہے کچھ صنم سوچے |
رت ملن کی ہے پھر وصال نہ کر |
دھیان ناصؔر ہو حرکتوں پر بھی |
ہو گزارش نئی سی چال نہ کر |
معلومات