خمیرِ زاغ و کرگس سے تنِ شہباز پیدا کر
صفوں میں اپنے بلبل ! بے خطر جانباز پیدا کر
نہیں کچھ بھی ترے آگے فلک کی رفعت و وسعت
اے شاہیں! بال و پر میں قوّتِ پرواز پیدا کر
بہت انداز دیکھیں ہیں زمانے کی نگاہوں نے
نگاہیں جس پہ جم جائیں تو وہ انداز پیدا کر
زمانہ تیری جانب خود بخود کھچتا چلا آۓ
حصارِ خار میں رہ کر گلوں سا ناز پیدا کر
بدل ڈالے تری دنیا محبت آفریں اے دل !
مرورِ زندگانی میں وہ سوز و ساز پیدا کر
تیری ہستی کو وا، کرنے میں بھی صدیاں گزر جائیں
وجودِ بزمِ ہستی میں نکات و راز پیدا کر
نظامِ مے کدہ کب تک کہن دستورِ پابند ہو
نیا ہے دور اے ساقی ! نیا انداز پیدا کر
غلامیت صفت آزاد کو درسِ شجاعت دے
تو طفلِ ناتوانوں میں بھی یکّہ تاز پیدا کر
سیاسی دستِ قدرت میں ہے تقدیرِ مسلمانی
سیاسی حلقوں میں غافل ! سیاست باز پیدا کر
سراپا بن کے بجلی چار سوۓ بزم کو لپکے
کہ ایوانِ سیاست میں تو وہ آواز پیدا کر
یہ محکومی نہیں جچتی جوانانِ مسلماں کو
اے شاہؔی ! نوجوانوں میں حکومت ساز پیدا کر

1
69
نیا انداز پیدا کر