کل تلک جس کے لئے تھے یار ہم
آج ہیں اس کے لئے اغیار ہم
چھوڑ دی دِل نے تمنا جینے کی
زندگی سے ہوگئے بیزار ہم
کر خدا آسانیاں پیدا کہ اب
اور اُٹھا سکتے نہیں یہ بار ہم
سانس بھی لیتے ہیں تو درد اُٹھتا ہے
موت سے کرتے ہیں آنکھیں چار ہم
حُسن نے مانگا محبت کا صِلہ
ہوگئے مرنے کو بھی تیار ہم
عید میں جیسے ذبیحہ ہو کوئی
عشق میں ایسے ہوئے ایثار ہم
غم نے حالت ایسی کی زیدؔی کہ اب
خود سے ہی ہیں برسرِپیکار ہم

0
58