کسی سے کبھی دل لگایا نہیں تھا |
محبت کو شیوہ بنایا نہیں تھا |
ستایا بہت میں نے دنیا کو لیکن |
ستائے ہوؤں کو ستایا نہیں تھا |
سدا کھیلتا ہی رہا میں دلوں سے |
مگر دل میں کوئی بسایا نہیں تھا |
ہوا یوں کہ پھر اک حسیں دل کو بھایا |
اسی نے ہی الفت کا رستہ دکھایا |
نگاہوں کو میری بہت وہ لبھایا |
نگاہوں کے رستے ہی دل میں سمایا |
محبت کا اپنی بھروسہ دلایا |
دلا کے بھروسہ تماشا بنایا |
ہنسایا اسی نے رلایا اسی نے |
محبت محبت سکھایا اسی نے |
یہ دامن وفا کا تھمایا اسی نے |
وفا کو جفا پھر بنایا اسی نے |
یہ غم یہ خوشی ہے بتایا اسی نے |
غموں سے تعارف کرایا اسی نے |
ابھی ہاتھ ہاتھوں میں آیانہیں تھا |
محبت کا جھولا جھلایا نہیں تھا |
ابھی تھا تعلق فقط جسم تک ہی |
ابھی روح میں وہ سمایا نہیں تھا |
ستایا ہے اس عشق نے مجھ کو جتنا |
فلک نے تو اتنا ہنسایا نہیں تھا |
معلومات